اگست 20, 2014

میرا وہ مٹی کا گھر مجھے ہر دم یا د دلاتا تھا
ان لمحوں کی جن میں میں وہاں بھوکے پیٹ سو جا تا تھا
جب میں کام سے تھک کر اپنے بستر پر گر جا تا تھا
پھر تو نیند تھی میں تھا اور ہر طر ف سنناٹا تھا
ہاں اس پھو س کے جھو نپڑے میں جہا ں گر می آتے ڈر تی تھی
جہا ں با رش کی رم جھم بوند ِِں سیدھے تن گیلا کر تی تھیں
یاد آتی ہے مجھکو وہ غر بت ،افلاس کی بے فکری
جہا ں خو شیاں سب میں با نٹتا تھا جہا ں تنہا غم میں ا ٹھا تا تھا
اور اب
عیش پر ستی جو کہ چین کی نیند ا ڈاتی ہے
اے سی سے دم گھٹتا ہے کولر میں نیند نہ آتی ہے
سکھ چین گیا سب رین گےء ان دنوں کی یاد ستاتی ہے
اس لمحے کی ہر یا دآکر من کو گدلا کر جا تی ہے
اب سمجھ گےء غر بت کے سکھ پہچان گےء لزت کیا ہے ؟
وہ غربت بھی کیا غر بت تھی یہ دولت بھی دولت کیا ہے؟ 

مئی 17, 2014


غزل
ایک دن مجھ سے آکر ملی زند گی 
میری خوشیوں میں شامل ہویء زند گی
دل میں جو زخم تھے ہم نے اس کو سیے
میری حرکت پہ ہنستی رہی زندگی
مجھ شکوا کیا روٹھتی بھی رہی
اورحسرت سے تکتکی رہی زند گی
زند گی بھی عجب رخ دکھانے لگی
زند گی سے جب آکر ملی زند گی
ہے اجل دوست اسکا بھروسہ بھی ہے
ورنا کرتا شکایت میں کیں زند گی
مجھ کو ہنستی ہنساتی رلاتی رہو
نام تیرا بھی آخر تو ہے زند گی
اتنی سب خوبیا ں تیرے اندر مگر
زند گی تم میری میری تم زند گی
آج سب کو گلے سے لگا کر جیو
کل کی کیا کل رہی نہ رہی زندگی

                             ایک دن مجھ سے آکر ملی زند گی
    میر ی خوشیو ں میں شامل ہویئ زند گی            
مجھ سے شکوہ کیا روٹھتی بھی رہی
اور حسرت سے تکتی رہی زند گی

معماران آدمیت:اقبال اور ٹیگور



              فیضان شاہد

    زمانہ ہر چیز کا شاہد ہے ۔اس نے دنیا میں ہزاروں اتار چڑھاﺅ دیکھے اور اس کا گواہ بھی رہا اس نے یورپ ، فرانس اور دنیا کے دوسرے ممالک میں آئے انقلابات کا مشاہدہ بھی کیا جس کے اثرات پوری دنیا پر اب تک ہیں اس نے نشاة ثانیہ کا منظر دیکھا اس نے سماج میں تبدیلیاں لانے والی ہزاروں تحریکات کا بھی جائزہ لیا۔ اس نے نبیوں ، پیغمبروں ، ولیوں ، مذہبی پیشواﺅں اور راہبوں کے پیغامات کو بھی سنا اور اس پر ظاہر ہونے والے ردِّ عمل کو بھی محسوس کیا مگر اس بات سے بھی زمانے انکار نہیں کہ اسے ایک ہی وقت میں دو عظیم شخصیتوں کو دیکھنے اور ان کی علمی و فکری صلاحیتوں سے فیضیاب ہونے کا موقع ملا اور وہ دونوں شخصیتیں علاّمہ اقبال اور رابندر ناتھ ٹیگورکی ہیں ۔
دونوں بیک وقت بیسویں صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی میں ہندستانی مطلع ادب پر نمایا ںہوئیں ۔ادب اور فنونِ لطیفہ جن کا تعلق انسان کے دلی جذبات و احساسات سے ہوتا ہے ان کا نہ کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ قومیت اور رنگ ونسل ، اس لحاظ سے ادیب و شاعر چاہے ان کا تعلق کسی بھی قوم سے ہو یا وہ کسی بھی جغرافیائی خطّے میں پیدا ہوئے ہوں وہ پوری انسانیت کا عظیم ورثہ ہیں ۔ ادب میں سیاسی اثرونفوذنیز اس کی کمان سیاست دانوں کے ہاتھوں میں ہونے کی وجہ سے انسانیت کے پوجاریوں اور خادموں کو تعصب اور تنگ نظری کا شکار ہو نا پڑا یہی حال ٹیگور اور اقبال کے ساتھ ہوا ۔دونوں عظیم شخصیتیں غیر معروضی آنکھوں سے دیکھی جانے لگیں اور انھیں ایک دوسرے کا حریف اور ایک دوسرے سے بر تر ثابت کرنے کی کوششیں کی جانے لگیں ۔زیرِ نظر مقالہ دونوں کا تقابلی مطالعہ نہ سمجھا جائے بلکہ دونوں کی نمایاں اوصاف اور صلاحیتوں نے شجر انسانی کی جو آبیاری کی ہے اس کو ملحوظ خاطر رکھا جائے ۔ تاہم اگر کہیں ایسی با ت محسوس ہو تو علامہ اقبال کا وہ شعر جو” سیدّ کی لوحِ تربت “میں انھوں نے کہا ہے میرے زیرِ نظر رہے گا ۔
    مدعا تیرا اگر دینا میں ہے تعلیم دیں            ترک دنیا قوم کو اپنی نہ سکھلانا کہیں
    وانہ کر نافرقہ بندی کے لیے اپنی زباں         چھپ کے ہے بیٹھاہوا ہنگامہ ¿ محشر یہاں
    وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے       دیکھ کوئی دل نہ دکھ جائے تری تقریر سے
    اقبال اور ٹیگور کو ئی نہیں چا ہتا تھا کہ ان کا اس طرح سے موازنہ کیا جائے یہی وجہ ہے کہ ٹیگور کو جب اس بات کا علم ہو اتو انھوں نے اپنے دوست ڈاکٹر عباس علی خاں لمعہحیدرا ٓبادی کو خط لکھ کر اقبال کی عظمت کا اعتراف کیا اور اس ناگوار موازنہ کا خاتمہ بھی کر دیا۔ یہ خط ۷ © ©فروری ۲۲۹۱ءکو لکھا گیا تھااس میں جہاں بہت ساری باتیں تھیں وہیں یہ بھی لکھا تھا کہ علاّمہ میں جاودانی ¿ علم و ادب کی عظمت ہے © ©“خط انگریزی میں ہے جس کے آخری الفاظ بہت اہم ہیں ۔ ٹیگور نے لکھا ہے :
"I am sure, both myself and Sir Mohammad Iqbal are                   
comrades working for the cause of truth and beauty   
in literature and meet in a realm where the human    
mind offers its best gifts to the shrine of the eternal man." (1)      
     دونوں کا تعارف یوں ہے کہ ایک شخص۷ مئی ۱۶۸۱ءکو کلکتہ بنگال میں پیدا ہوا تو دوسرا ۹ نومبر ۷۷۹۱ءکو سیالکوٹ پنجاب میں ۔ ایک شخص پنجابی ،اردو،ہندی،فارسی ،عربی اور انگریزی زبانوں کا عالم ہے تو دوسرا بنگالی ، انگریزی اور سنسکرت کا ۔ ان دونوں نے ایک ایسے عہد میں آنکھیں کھولیں جب پورا ملک تحریکِ آزاد ی میں سرگرم تھا ہندستانیوں نے اپنے برطانوی حکمرانوں کے خلاف ہتھیار اٹھالئے تھے اور ایک طرف تو گاندھی جی اور علی برادران (شوکت علی ، محمد علی )برطانوی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہے تھے ۔تودوسری طرف یہ دونوں شعرا اپنے انداز کا انقلاب پیدا کرنے میں مصروف تھے۔
  اس طرح دونوں شعرا کی منفرد خصوصیات ہیں اور ان کے ادبی روےّ میں بھی فرق ہے ۔ جو ان کی پوری زندگی میں نمایا ںہے ان میں حالات ،پرورش اور سماجی پس منظر کا بھی اہم رول ہے ۔ ٹیگور نے ایک اصلاح پسند ہندو کی حیثیت سے پرورش پائی ان کے والدبرہموسماج کے رکن تھے اقبال نے خالص اسلامی ماحول میں پرورش پائی ان کے والد ایک کٹر سنی تھے بعد میں ٹیگور ایک مصلح بن گئے انھوں نے زندگی نفاق و انتشار کے بجائے اتحاد سے بسر کرنے پر زیادہ توجہ دی ۔ اقبال باغیانہ ذہن رکھتے تھے و ہ سماج میں ہنگامہ آرائی پر یقین رکھتے تھے تا کہ نیا معاشرہ تشکیل کیا جا سکے لیکن اقبال نے اپنے دوست سید امجد علی کو جو بعد میں اقوام متحدہ کے لیے پاکستان کے سفیر متعین کئے گئے بہت صاف گوئی سے کہا تھا اور اسی جہاز میں ہندستانی سائنس داں سر سی وی رمن بھی موجود تھے جو اقبال کی بات سے بہت محظوظ ہوئے اور متاثر بھی کہ:
 ”ٹیگور اور میرے درمیان صرف اتنا فرق ہے کہ وہ آرام اور سکون کی تبلیغ کرتے ہیں لیکن عملی طور پر کام کرتے ہیں لیکن میں عمل کی بات کرتا ہوں اور خود تساہل برتتا ہوں “(2)

تاہم علی سردار جعفری نے اقبال کی خاکساری کو دور کرتے ہوئے لکھا ہے :
         ”اقبال مسلم بیداری کے شاعر تھے اس میں ایشیائی بیداری شامل ہے اقبال ہندستان کی بیداری کے شاعر تھے اس
             میں پوری تحریک آزادی شامل ہے اور اقبال عالم انسانیت کی بیداری کے شاعر تھے ا س میں اشترکیت کی فتح اور کارل مارکس
             اور لینن کے افکار کی عظمت شامل ہے“(3)                
    ٹیگور ایک آفاقی شاعر تھے ان کے عہد میں اور بڑی بڑی شخصیات نے جنم لیا نہرو اور گاندھی ان کے معاصر ہیں یہ اپنے عہد کی پیدا وار تھے لیکن اپنے عہد سے بڑے تھے ٹیگور کے اساتذہ نے اپنے ہونہار شاگرد میں کوئی خصوصی دلچسپی نہیں لی لیکن اقبال کی خوش قسمتی کی انھیں ایسے اساتذہ ملے جنھوں نے ان کی ذہنی نشو ونما پر خصوصی توجہ دی اور بعد میں ان کے سر پرست بن کر رہے ۔ ٹیگور ایک منتظم تھے انھوں نے کئی اداروں کی بنیاد رکھی اقبال کی دلچسپیاں تجریدی تھیں انھیں عملی کام سے نفرت تھی ٹیگور امن پسند تھے اقبال رزم آرائی اور انقلاب کے د لدادہ تھے ۔ ٹیگور نے لوگوں کو رومان سے آشنا کیا اور اقبال نے شجاعت اور تسخیر کادرس دیا۔ٹیگورکونسوانی حسن سے دلچسپی تھی اور اقبال کو قوت مردانہ سے ٹیگور کی شاعری میں موسیقی تھی اور اقبال آتش نفس تھے۔ ٹیگور منکسر المزاج تھے اور اقبال کے مزاج میں خودداری تھی ۔ ٹیگور کی شہرت اپنے وطن کے علاوہ بیرون ممالک میں بھی تھی اور اقبال عالم اسلام کے دلوں کی دھڑکن تھے ۔ ٹیگور کو ۳۱۹۱ءمیں نوبل انعام برائے ادب حاصل ہوا اور اقبال کو شاید ہی کوئی بین الاقوامی اعزاز ملا ہو نہ ہی انھوں نے مختصر وقفہ کے علاوہ سیاست میں حصہ نہیں لیا ۔ لیکن دونوں کو عوامی امور میں دلچسپی ضرور تھی اس کا اظہار ان کی تحریروں میں ملتا ہے ۔ ٹیگور مزاجاً صلح کل اور نرم رو تھے اور اقبال تیز رو اور متحرک مزاج تھے ٹیگور انڈین نیشنل کانگریس سے منسلک تھے اور اقبال آل انڈیا مسلم لیگ سے تعلق رکھتے تھے ۔ٹیگور نے ایک بے مثال خوش حال زندگی گذاری ا وراسّی سال کی عمر میں وفات پائی اقبال کو پوری زندگی جدوجہد کرنی پڑی اور اکسٹھ سال کی عمر میں بستر علالت پر انتقال کیا ۔ٹیگور ہمیشہ مستعد اور فعال رہے اور اقبال کی سستی اور کاہلی سے کبھی دوستی نہیں ٹوٹی ٹیگور ایک عظیم شاعر، ادیب ،فلسفی،ناول نگار،افسانہ نگار،ڈرامہ نویس، مغنی اور مصوّر تھے ۔اور اقبال شاعر ،مفکر ،فلسفی اور مدبر تھے۔
     ای ایم فاسٹر جو انگریزی ناول نگار ہیں اور ہندستانی تہذیب واقدار کو بہت قریب سے جانتے تھے انھوں نے اپنی کتاب Two Cheers for Democracy میں دونو ں شخصیات کے درمیان تفاوت کو انتہائی فلسفیانہ انداز میں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :
  ”اقبال انتہائی ذہین اور ثقہ شخصیت ، نیز مسحور کن ہیں اور اگر چہ میںاکثر ان کی رائے س اتفاق نہیں کرتا اور ٹیگور سے متفق ہوں
          لیکن میں اقبال کو پڑھنا زیادہ پسند کرتا ہوں کیوں کہ مجھے معلوم ہے کہ کہاں پر ان کا راستہ ایک ہے “۔ (4) 
     ٹیگور معمولی انسان نہیں تھے زندگی کے ساتھ ان کا رویہ وسیع المشربی کا تھا وہ کشادہ ذہن شخص تھے ۔ہندستان ہی نہیں پوری دنیا نے انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا ۔لیکن اتنی عظمت اور مختلف الجہت شخصیت ہو نے کے با وجود اقبال کی قدر اہل ِ وطن نے اس طرح نہ کی جس طرح ان کا حق تھا اقبال کی شخصیت ہندستان میں اپنی شاعری اور سیاست کے چلتے ایک اختلافی مسئلہ بن کر رہ گئی اور تقسیم ِہند کے بعد تو یہ مسئلہ اورشدت اختیار کر گیا:
         ©”ا قبا ل کو لوگوں نے فسطائیت کا علمبردار کہا کیوں کہ انھوں نے اپنے کلام میں ایک جگہ مسو لینی کی تعریف کی ۔“( 5 (        
    حالانکہ ٹیگور کے ساتھ یہ بات نہیں رہی انھوں نے بھی مسولینی کی اٹلی میں تعریف کی مگر وہ فسطائیت کے علمبردار نہیں تھے بلکہ وہ ایک روحانی سفیر کہلائے ۔یہ امر بھی غور طلب ہے کہ اقبال کی شاعری ان کے فلسفے اور شخصیت کے بہت سارے پہلوﺅں پر جہاں تجزیہ کیا گیا وہیں بہت ساری غلط فہمیوں کا ازالہ باقی رہا۔۴۸۹۱ءمیں ہریانہ کے گورنر ایس ایم ایچ برنی نے بھوپال یونیورسٹی میں اقبال کی حب الوطنی پر لیکچر دیتے ہوئے بہت ساری غلط فہمیوں کو دور کر نے کی کوشش کی مگر اقبال کے تعلق سے لوگوں کے ذہن میں جو چیز گھر کر گئی تھی وہ ٹیگور کے لئے نہیں ہو سکتی تھی اس غلط فہمی کا شکار نہ صرف فرقہ پرست عناصر ہوئے بلکہ سیکولرلوگوں کے ذہن بھی میلے ہو گئے اقبال نے تین قسم کے ذہنوں کی تربیت کی ایک انقلابی ذہن جس کی مثال فیض ،مخدوم۔ اور دوسرے ترقی پسند شعرا کے یہاں ملتی ہے ۔ دوسرے بیدار مغز نیشنا لسٹ جس کا بہترین نمونہ ڈاکٹر ذاکر حسین ، خواجہ غلام السیدین ، شیخ محمد عبداللہ اور ڈاکٹر عابد حسین جیسی شخصیتں ہیں جن کے یہاں گاندھی ، نہرواور اقبال کی آمیزش ہے اور تیسرا فرقہ پرست ذہن جس نے اقبال کی شاعری کا غلط استعمال کر کے اپنے لیے جواز پیش کیا اس فرقہ پرست ذہن کا کوئی مذہب نہیں ہے ۔ یہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھ سکتا ہے جبکہ ٹیگور کے ذہن کو تین تحریکوں نے کافی متاثر کیا تھا ان میں راجہ رام موہن رائے کی مذہبی تحریک (۳۳۸۱۔ ۲۷۷۱ء) بنکم چند چٹرجی کی ادبی تحریک (۴۹۸۱۔۸۳۸۱ئ)اور قومی تحریک یا نیشنل مومنٹ ،قومی تحریک اگر چہ اس وقت تک وجود میں نہیں آئی تھی لیکن ذہنی تشکیل جاری تھی خود رابی کوقومی تحریک نے اس کی عظمت ِرفتہ پر فخر کرنے کے قابل بنایا تھا اس کا فلسفہ آرٹ بالخصوص اس لائق تھے کہ ان پر فخر کیا جائے تاہم ٹیگور اسکے منفی پہلوﺅ ںکو بھی سمجھ رہے تھے اور تجرید سے تجسیم کے عمل کی جانب ان کا ذہن رواں دواں تھا ان کے شروع کے چالیس سال محض رومانٹک اور وکٹورین شاعری یعنی شیکسپئر اوراس کی شاعری سے مشابہ ہے اور سنسکرت ادب کا رخ کریں تو کالی داس نے ان کے ذہنی حاشیہ میں گھر کیا ہوا تھا اور دھیرے دھیرے ان کے ذ ہنی ارتقا کو مہمیز لگا کر اس کی دھارائیں ہندستانی تہذیب و ثقافت کی دھارا میں مدغم کر دیا تھا۔ اس طرح ان سے متاثر ہونے والا کوئی ایک خاص طبقہ نہیں بلکہ پورا عالم رہا۔
    اقبال کی شخصیت کی تعمیر میں کشمیری برہمن کا دماغ،مسلمان کا دل ،قرآن کریم کی تعلیمات،مغربی علوم، ہندو فلسفہ،جلاج الدین رومی اور غالب کی شاعری مارکس اور لینن کے انقلابی تصورات شامل ہیں:
      خرد افزود مرا درسِ حکیمان فرنگ     سینہ افروخت مرا صحبت صاحب نظراں
        (مغربی مفکروں کے پڑھائے ہوئے سبق نے میری عقل میں اضافے کئے لیکن میرے سینوں کو عارفوں کی نگاہ نے روشن کیا ہے )   
    یہی وجہ ہے کی علامہ کی شاعری میں شعرا ،فلسفی ، سائنسداں سبھی کا احاطہ ہے ان میںطا لسطائی،شکسپئر،ہیگل،گوئٹے،برگساں،بائرن،براﺅننگ، لانگ فیلو، ٹینی سن،مارکس، لینن، آینسٹائن ، وغیرہ کے علاوہ مشرقی صاحب نظر اور اسلامی ہستیاں بھی شامل ہیں اور رام، گوتم بدھ ، شیو ،بھر تری ہری ،شنکر آچاریہ ،گرو نانک وغیرہ کابھی ذکر ملتا ہے نیز ان کی نثر میں ویدوں کی مرعوب کن عظمت کا اعتراف اور بھگوت گیتا کی مدح بھی ملتی ہے ۔ اقبال کا ذہن فرقہ پرستی سے بلند تھا انھوں نے کبھی ہندﺅں کے خلاف ایک حرف نہیں لکھا اور مسلمانوں کے روحانی نشاة ثانیہ کو ہندستان کی آزادی سے الگ نہیں کیا ان کی شاعری اکثر وبیشتر اسلامی استعارے میں آفاقی حقیقتیں پیش کر تی ہے ۔اور ٹیگور کے یہاں بھی انھیں عظمتوں کا اظہار دیکھنے کو ملتا ہے انھوں نے ہندو استعارے میں آفاقی حقائق پیش کئے ہیں ۔
    ٹیگور اور اقبال میں بنیادی طور پرنظریاتی فرق تھا ٹیگور وحدت الوجود کے حامل تھے ۔ ”آتم پریچئے“(اپنا تعارف)میں ایک گراں قدر عبارت ہے جس سے ان کے عقائد اور نصب العین کا پتہ چلتا ہے اور اس اہم راز سے بھی پردہ اٹھتا ہے کہ عقائد اور نصب العین نے ان کی زندگی پر کتنا اثر ڈالا ہے۔
      ”میں نے اس دنیا سے محبت کی ہے میں نے عظمت کے آگے احترام سے اپنا سر جھکا دیا ہے ۔ میں نے آزادی چاہی ہے ۔ہاں۔
    ایسی آزادی جو قادر مطلق کے نام اپنی زندگی کو وقف کر دینے پر حاصل ہوتی ہے ۔ میراےہ عقیدہ رہا ہے کہ پر ماتما انسانوں کے اندر ہی
    شامل ہے وہ انسانوں کے دلوں میں جاگزیں ہے بچپن ہی سے میں بڑی ریاضت اور تندہی کے ساتھ ادبیات اور انشا پردازی کے مشغلہ
   میں مصروف رہا ہوں ۔ لیکن اپنے اس حلقہ عمل سے با ہر آکر جہاں تک ہو سکا میں نے اس کی کوشش کی ہے کہ جو کچھ بھی میں نے کیا ہے اور
    جتنا بھی ایثار مجھ سے ہو سکا ہے سب کو اکٹھا کر کے اس حا کم اعلی کو نظر کر دوں ۔ اگر کبھی مجھ کو کسی بیرونی مخا لفت کا سا منا کرنا پڑا ہے تو اس کے
   صلے میں مجھے انتہائی دلی تسکین حا صل ہو ئی ہے ۔میں اس زیا رت گا ہ یعنی دنیا میںآیا ہوں جہاں پر ہر زما نے اور ہر ملک کی انسانی تاریخ کامبتدا
   اور مر کز اللہ رب اللعا لمین ہی رہا ہے۔ اس کی بارگاہ میں خا موشی کے ساتھ بیٹھ کرمیں اس مہم کو سر کر نے میں مصروف ہوں کہ اپنی خودی اور انا نیت
   کو اور اس خیا ل کو کہ میری بھی کو ئی علا حد ہ ہستی ہے اپنے دل سے دور کر دوں © ©۔،،(6)
          یہی وہ وجوہات ہیںجن کی وجہ سے ٹیگور کی شاعری میں فطرت کے جمال کے ساتھ انسا نی ذہن کی پر اسرار طا قت بولنے لگتی ہے اور جب صداقت کی یہ تابانی ایک ابدی مسرت کی لہر بن کر کائنا ت کی ہر سطح پر رقص کر نے لگتی ہے تو شا عر کی شخصیت سے ہم آہنگ ہو جا تی ہے ۔ ٹیگور نے ایک جگہ لکھا ہے۔
ِِ ´ ´     ”میں مختلف طر یقوں سے ظاہر ہونے والی آواز ہوں ،میں اس لا محدود کی آواز ہوں جس کے بے شما ر پہلو ہیں اور یہ پہلو مختلف النوع ہیں۔
     میں اس غیر مختنم بے نام مسرت اور آنند کی آواز ہوں جو تما م چیزوں میں جا ری و ساری ہے ،،۔۔۔اور وہ مسرت جو مر کزی تخلیق ہے،
     میری دلی آواز ہے اور میری زند گانی کا مقصد ہے ©“۔ (7) 
        یوں تو Idealismکے تما م عنا صر ان کی فکر میں شامل ہیں لیکن ہریندر ناتھ ٹیگور نے ان کے فلسفے کو Concrete Monoismیعنی ”ٹھوس وحدت الوجود“ کا نام دیا ہے یہ ٹھوس اسی لیے ہے کی ٹیگور نے اصل صداقت کا نام اسے دیا ہے جو تمام تضادات کو خود جذب کر لیتی ہے اور ٹھوس روپ میں وہ ایک ہے ۔ ایک ایسی ٹھوس وحدت جہاں سارے فرق مٹ جاتے ہیں ۔ ڈاکٹر رادھا کرشنن کا کہنا ہے کہ”ٹیگور کے فلسفے میں قدیم ہندوستانی علم کو دور حاضر کی ضرورتوں کے مطابق دوبارہ سجایا گیا ہے “ ٹیگور نے نہ صرف یہ کی ہندستانی فلسفے کی تجرید یت کو ٹھوس بنیاد عطا کی ہے بلکہ انھوں نے خدا یعنی ایشور کو انسانی جہت بخشی یعنی خدا کے تصور کو انسان کے قریب تر کر دیا “ دنیا کے مایا روپ یا بھرانتی روپ کی ایک طرح سے نفی کی ہے اور وجود کے مکمل ہونے کے امکان کو روشنی میں لانے کی مکمل کوشش کی ان کے فلسفیانہ خیالات میں ست (اصل وجود) اور ایشور کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ان کے یہاں ست اور ایشور دونوں ایک ہیں ٹیگور نے ایشور کو ستیم ، آنندم، سندرم ،اور شوا مانا ہے اور اسے نا قابل تشریح بتایا ہے اورخدا میں انھوں نے انسانی خصوصیات تلاش کی ہیں ۔ ان کا خدا دراصل ایشور اور پرُش دونوں ہے اور اس کو انھوں نے جیون دیوتا بھی کہا ہے ۔
وحدت الوجود کا نظریہ دراصل افلاطونی نظریہ تھا جس کی رو سے حقیقی وجود صرف ذات باری تعالی کا ہے اور عقبیٰ ہی سب کچھ ہے اس نظریہ نے جہاں بہت سارے لوگوں کو متاثر کیا وہیں ذو النون مصری ، با یزید بسطامی، منصور حلاج بھی متا ثر ہوئے اور محی الدین ابن عربی نے تو باقاعدہ اس کی وکالت کی اور عراقی و حافظ نے اس کی اپنی شاعری سے اشاعت کی چنانچہ اس نظریہ نے ترک دنیا ،ترک عمل اور رہبانیت کا درس دیا یورپ اس نظریہ کو ماننے والا تھا لیکن نشاة ثانیہ کی تحریک نے یورپ میں زبر دست تبدیلیاں پیدا کیں ۔ فرانسس بیکن ،ڈیکارٹ ،گلیلیو، کاپرنیکس ،راجر بیکن کے انقلابی نظریات نے اس عقیدے کو زائل کر دیا ۔ مگر مشرق میں ایسی کوئی شخصیت نہ تھی جو اس فضا کو ختم کرتی ہندستان میں ویدانت کے فلسفہ سے اس کو مزید تقویت ملی سری کرشن نے ارجن سے کہا تھا کہ جب انھوں نے اپنی ہستی مٹا دی تو وہ خدا بن گئے۔
    فارسی اوراردو شاعری پر تصو ف کا غلبہ رہا تو اقبال اور ٹیگور بھی اس فلسفہ سے بچ نہ سکے اقبال کو اس کے غیر اسلامی ہونے کا راز منکشف ہوا تو وہ تائب ہوگئے انھوں نے ایک مضمون میں لکھا ہے :
”مجھے اس امر کا اعتراف کرنے میں کوئی شرم نہیں کہ میں ایک عرصے تک ایسے عقائدو مسائل کا قائل رہا جو بعض صوفیہ کے ساتھ
خاص ہیں اور جو بعد میں قرآن شریف پر تدبر کر نے سے قطعا غیر اسلامی ثابت ہوئے مثلاً شیخ محی الدین عربی کا مسئلہ وحدت الوجود “ ۔(8)
       لیکن ٹیگور کے ساتھ ایسا کوئی مسئلہ نہیں تھا چنانچہ وہ اس نظریہ کے عمود کی حیثیت رکھتے ہیں شیخ احمد سرہندی (مجدد الف ثانی) بھی وحدت الوجودی نظریہ کے قائل تھے لیکن بعدمیں انھوں نے ”ہمہ اوست“ کے بجائے ”ہمہ از اوست“ کومانا اقبال کی بانگ درا اور بال جبریل میں بھی اس نظریات کی مثالیں دیکھنے کو مل جائیں گی ٹیگور کے وحدت الوجود کا مبلغ ہونے کی بات حامد حسن قادری نے بھی کی ہے ” Song Offerings“ (نذرِ نغمہ) پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے :
”یہ نظمیں گویا ایک نذر ہیں جو دربارِ خداوندی میں بطورے نغمہ پیش کی گئی ہیںاس لیے اس کا نام سانگ آفرنگ (نذر نغمہ)رکھا گیا
  اس میں وحدت الوجود کی تبلیغ کی گئی ہے شاعر کو ہر چیز میں خدا کا جلوہ نظر آتا ہے اور اس کی رضا وتسلیم اور فنا فی الذات ہو نے کا سبق دیتا ہے
 یہ کتا ب عجیب روحانی جذبات اور وجدانی کیفیات سے لبریز ہے “(9)
          ٹیگور کی گیتانجلی میںویدانتی وحدت الوجودی فکر ملتی ہے ۔ وجودی فکر کی بنیاد لا الہ الا اللہ پر ہے جس کو صوفیا نے اپنی زبان میں لامطلوب الا اللہ ، لا مقصود الا اللہ اور لا موجودالااللہ کہا ہے ۔ وجودی فکر کا سنگ بنیاد ”ہمہ اوست“اور اصول ”ہمہ موجود یک وجود حق دانشتن“ ہے اور اسی وجودی فکر کا کافی اثر گیتانجلی پر بھی دکھائی دیتا ہے ۔
 اسی طرح اقبال نے اپنی اردو فارسی دونو ں شاعری میں عظمت انسان کو سراہا ہے جگن نا تھ آزاد لکھتے ہیں:
        ”کلام اقبال میں کہیں تو عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہو ئے نظر آتے ہیں اور کہیں کہکشاں ،ستارے اور نیل گوں افلاک
       عروج آدم خاکی کے منتظر دکھائی دیتے ہیںکہیں مشت خاک کے فرشتوں سے زیادہ تابناک ہونے کی بشارت ملتی ہے تو کہیں یہ
         خاک پرا سرا ر ثریا سے سے بھی اونچی جاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے “۔(10)
    اقبال کے نزدیک یہ روحانی صداقت ہے کہ انسان خدا ہی کی تخلیق ہے لیکن خالق ومخلوق کا یہ رشتہ ختم نہیں ہو تا بلکہ اقبال کی شاعری میں یہ ایسا پہلو ہے جس کی مثالیں کلام اقبال میں اوّل سے آخرتک موجود ہےں۔ اپنی نظم ”تسخیرِ فطرت “میں انھوں نے انسانی عظمت کاا عتراف کیا ہے :
        نعرہ زد عشق کہ خونیں جگر ے پیدا شد  حسن لر زید کہ صاحب نظر پیدا شد
        فطرت آشفت کہ از خاک جہاں مجبور خود گرے ، خود شکنے ،خود نگر ے پیدا شد
     اقبال نے جرمن شاعر گوئٹے کے دیوان مغربی کے جواب میں جو فارسی کتاب پیام مشرق ۳۲۹۱ءمیں لکھ کر شائع کی تھی اس میں ایک نظم ہے ”محاورہ مابین خداو انسان“جس میں خدا کے مقابلے انسان کی تخلیقی بر تری کو اقبال نے پیش کیا ہے اقبال کے یہاں رحمت خدا وندی کامظہرانسان ہے اور گلشن کائنات کا گل سرسبد بھی وہی ہے اور وہ انسانی تخیل کے بجائے انسانی تاریخ کا انسان ہے وہ تاریخی وجود رکھتا ہے وہ صاحبِ نظر اور خودنگر مخلوق ہے وہ خاک جہان مجبوری سے پیدا ہوا ہے لیکن وہ مجبور محض نہیں رہا ۔
    کولن ولسن کا قول ہے کہ ”بڑے ادب کی خاصیت ہے کہ وہ انسانی عظمت اور انسانی فلاکت کے پس منظر میں تخلیق کیا جاتا ہے یعنی بڑا ادب بیک وقت انسانی عظمت اور انسانی فلاکت کا ترجمان ہوتا ہے اور اقبال کی شاعری میں یہ چیز بدرجہ اتم موجود ہے © © ©“ ۔ ان کی نظم سر گذشت آدم انسانی عظمت کی دلیل ہے کہ وہ کائنات میں اشرف المخلوقات ہے اور فرشتوں سے بھی افضل ہے ۔
    ٹیگور نے بھی انسان کو اشرف المخلوقات کادرجہ دیا ہے وہ انسان کو ایشور کے ستار کا سونے کا تار کہتے ہیں انسان کے دنیا میں آنے کے بعد دنیا کا میکانکی انداز کا ارتقا ختم ہو کر روحانی اور تخلیقی راستے پر چل نکلا یہاں اقبال کے ساتھ ٹیگور کی ہما ہنگی دیکھنے کو ملے گی اقبال نے انسان کے ارتقا کو Evolution Creative نام دیا ہے ٹیگور کا ماننا ہے کہ کائنات کے ارتقا میں انسان نے اپنا تعاون دیا ہے اور یہی انسان کی انفرادیت ہے جو اسے دوسرے جانداروںیا اشیا سے ممتاز بنا تی ہے اسی لیے ہر انسان دوسرے سے مختلف بھی ہے یہاں ٹیگور کے فلسفہ میں وجودیت کی ایک جھلک بھی دکھا ئی دیتی ہے مگر انسان کی عالم گیر جہت بھی ہے جس کی وجہ سے ہر انسان دوسرے سے مابعدالطبعیاتی سطح پر منسلک ہے یہ ٹیگور کا انسان اور خالص انسانی فلسفہ ہے انسان کے وجود رپر اتنا زور دینے کے سبب فطری طور پر ٹیگورآگے چل کر جسم اور روح کی دوئی کے نظریے تک پہنچتے ہیں کیوں کی وہ انسان کو محدود اور لا محدود دونوں مانتے ہیں وہ انسان کو” سیمت اسیمت پرش“ کہتے ہیں اس لیے ان کے مطابق انسان کی محدودیت کا پہلو اس کا جسم ہے اور لا محدودیت کا آتمایاروح ۔
ان کے نزدیک آتما کے ساتھ جسم بھی مکمل سچ ہے اس طرح وہ قدیم ہندستا نی فلسفوں سے انحراف کرتے ہیں جہاں صرف آتما کو صداقت مانا گیا ہے اور جسم کو فریب اور غیر حقیقی شئے
     اسی طرح علامہ کے فلسفے پر اگر ہم غور کریں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کا فلسفہ ان تمام کے گرد چکر لگاتا ہے ان میں خودی ،استحکام خودی ، عشق،جہدوعمل ، شاہین ، جبر واختیار ، فخرواستغنٰی، مرد کامل ، زماںومکاں ،ضبط نفس، اطاعت الہٰی اور بے خودی وغیرہ ہیں ۔ علامہ کے فلسفہ حیات کو اور ان کے پیغام کو ماہرین نے خودی سے تعبیر کیا ہے اس لیے کہ ان کے جملہ مباحث کا محور یہی ہے اور انھوں نے اپنے پیغام یا فلسفے کو اسی نام سے موسوم کیا ہے ۔ اس فلسفہ میں خود بینی و خدابینی دونوں لازم ملزوم ہیں خود بینی خدا بینی میں جارح نہیں بلکہ معاون ہے خودی کا احساس ذات خداوندی کاادراک اور ذات خدا وندی کا ادراک خودی کے احساس کا اثبات و اقرار ہے ۔ خدا کو فاش تر دیکھنے کے لیے خود کو فاش تر دیکھنا از
بس ضروری ہے ۔خودی نام ہے احساس غیرت مندی کا ، جذبہ ¿ خوداری کا، اپنی ذات وصفات کے پاس و احساس کا، مظاہرات فطرت سے برسرپیکار رہنے کا، اپنی انا کو جبر وشکست سے محفوظ رکھنے کا ، حرکت وتوانائی کو زندگی کا ضامن سمجھنے کااوردوسروں کا سہارا تلاش کر نے کے بجائے اپنی دنیا آپ تلاش کر نے کا © © گویا اقبال کے نقطہ ¿ نظر سے خودی زندگی کا آغازوسط اور انجام ہے اور فرد کی ترقی اور ملت کی ترقی خودی کی ترقی میں پنہا ہے خودی کا تحفظ زندگی کا تحفظ ہے اوراس کا استحکام زندگی کا استحکام ہے ۔ازل سے ابد تک خودی ہی کار فرما ہے اقبال نے بعض جگہ تو یہ بات بھی کہہ دی ہے کہ
        ”لاالہ الااللہ کا اصل راز ”خودی “ہے”توحید “خودی کی تلوار کو آبدار بنا تی ہے اور خودی توحید کی محافظت کرتی ہے ۔“(11)         
     فلسفہ خودی میں توحید و رسالت کو اہمیت دینے کو وجہ سے علامہ پر فرقہ پرست اور طبقاتی منافرت کا داعی ہونے کا بھی الزام عائد کیا گیا نیز نطشے کا مقلد بھی کہا گیا مگر علامہ نے پروفیسر نکلسن کو خط لکھ کر اس کی تردید کی عبد الرحمان بجنوری نے لکھاہے کہ ”اقبال کے فلسفہ خودی یا پیغام حیات پر مولانا جلال الدین رومی کے گہرے اثرات ہیں جہاں تک ٹیگور کا مسئلہ ہے تو ٹیگور کے فلسفیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا مگر ان کا وضع کر دہ کوئی فلسفہ نہیں ہے اور یہ بات بھی حقیقت ہے کی ان کا دماغ کسی ایک فلسفہ پرقائم نہیں رہ سکتا۔ پروفیسر پیرسن کے الفاظ میں ”ٹیگور کا کوئی عقلی وباوثوق فلسفہ نہیں ہے “۔ اقبال کا شمار دنیا کے بزرگ ترین فلسفیوں میں ہوتا ہے ۔ سر طامس آرنالڈ نے لکھا ہے کہ ”اقبال مشرقی ومغربی فلسفہ زندگی کا ایک متین و عمیق محقق ہے“۔ اقبال کے کلام میں فلسفہ کو ایک مستقل حیثیت حاصل ہے ان کافلسفہ ان کی شاعری سے پہلے آتا ہے جبکہ ٹیگور کی شاعری اس کے فلسفے پر مقدم ہے ٹیگور نے اپنی مشہور تصنیف Religon of man ©میں لکھا ہے :
 religion see ©I have already made the confession that my religion is a poet's
         that I feel about it from vision and not from knowledge .Frankly I acknowledge
that I can not satisfactory answer any question about evil or about what 
 happens after death. Never the less I am sure that these have come  
 moments in my experience when my soul has touched the infinite and has 
become infinitely conscious of it through the ilumination of joy.,,(12)   
        اس طرح ان کاماننا ہے کہ ان کا مذہب شاعروں کا مذہب ہے اور فلسفہ کے مشکلات کے حل کے لیے ان کے پاس کوئی علم نہیں وہ جو بھی بیان کرنے پر قادر ہیں ان کے اپنے روحانی تجربات و مشاہدات ہیں ۔
    اقبال کی نظر آفاقی تھی ان کے اصول اخلاق میں کائنات کی گہرائی روحانیت کی ہم وسعتی تھی وہ مادی حد بندیوں سے کیسے محصور رہ سکتے تھے ان کے یہاں بلا کا توازن تھا انھوں نے ٹیگور کو جیسا پہچانا شاید کسی نے پہچاناہو وہ ٹیگور کی عظمت کے قائل تھے ان کا مطمح نظر ایک ایسا مرد کامل ہے جو جسمانی ،دماغی ،اخلاقی اور روحانی اعلیٰ قوتوں سے مسلح ہو اور اپاہج ،کام چور ، بدہمت نہ ہو صاحب عزم وعزیمت ہو اوراپنے فرائض کی ادئیگی میں چاق وچوبند مستعد و متحرک ہو خود دکھ اٹھائے دوسروں کو سکھ پہنچائے خود بھوکا رہے دوسروں کو کھلائے خواہشوں کا غلام نہ ہو ان پر حاکم ہو ۔ وہ رومی سے متاثرہونے کی بناپر ان کے اثرات قبول کر رہے ہیں اور سماج کو موثربھی بنا رہے ہیں چنانچہ ڈاکڑ فرمان فتحپوری نے لکھاہے کہ:
  ”اقبال نے اردو شاعری کو انسان کی حقیقی زندگی اور اس کے مسائل سے ہم کنار کر کے تامل وتفکر کے عناصر سے ہم آہنگ کیا ۔
سچے جذبوں ، روحانی قدروں اور حیات افروز خیالات کو جگہ دی اس کے لہجے کو پر وقار اور محترم بنایا مغرب سے وہی چیزیں لیں جن کی ضرورت تھی
 اور انسانی زندگی کے مسائل کے حل میں معاون ہو سکتی تھیں زندگی کے بارے میں منفی رجحانات کو ترک کر کے مثبت رجحانات کو جگہ دی اور ادب کو
 زندگی سے اس طرح ہم رشتہ کر دیا کہ دونوں کو الگ کرنا ممکن نہ رہا ۔“(13)
                   
    چنانچہ اس اثرکا اعتراف بعد کے لوگوں نے بھی کیا منشی درگا سہائے سرور جہان آبادی بھی اقبال کے فکر وفلسفہ کے معترف نظرآتے ہیں۔ان کی نظم ”فضائے برشگال “ میں یہ چیز دیکھنے کو ملتی ہے چکبست کی وطنی شاعری پر اقبال کے اثرات دکھائی دیتے ہیں اس کے علاوہ حامد اللہ افسر میرٹھی، جوش ملیح آبادی ، ساغر نظامی ،احسان دانش،روشن صدیقی وغیرہ سب کے رنگ الگ تھے راہیں جدا تھیں مگر سر چشمہ ایک تھا ۔
    اقبال کا تصور عشق جہاںزندگی کا محرک عمل بن کر تسخیر ِفطرت میں انسان کی مدد کرتا تھا وہیں دوسری طرف اسے کائنات سے متحد رکھتا تھاا وریہی اتحاد ان کی زبان پر بھی رہا اور اس کے لیے وہ کوشاں بھی رہے چنانچہ علامہ نے اپنی وفات سے چند ماہ قبل یعنی یکم جنوری ۸۳۹۱ءکو سال نو کے موقع سے کہا تھا اور اسی سال اپریل میں ان کا انتقال ہوا آپ کی تقریر آل انڈیا ریڈولاہور نے نشر کیا تھا آپ نے فرمایا تھا:
          ”دنیا کے ہر گوشے میں چاہے وہ فلسطین ہو یا حبش ، ہسپانیہ ہو یا چین ایک قیامت برپاہے ۔لاکھوں انسان بے دردی
         سے موت کے گھاٹ اتارے جا ر ہے ہیں جیسے دینا میں یوم حشر آن پہنچا ہے۔“
        ”دراصل انسانیت کی بقا کا راز انسانیت کے راز میں ہے جب تک دنیا کی علمی قوتیں اپنی توجہ کو احترام انسانیت کے
        در پر مرکوز نہ کر دیں دنیا بدستور درندوں کی بستی رہے گی “(14)                 
    جہاں اقبال انسانی اتحاد کے لیے کوشاں تھے وہیں ٹیگور نے بھی اپنے فکر وعمل سے اتحادی فکر کو پروان چڑھایا ایک موقعے سے آپ نے کہا تھا:
        ”صدیوں سے ساتھ ساتھ رہنے کی وجہ سے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان ایک تعلقاتی پل کی تعمیر کی گئی ہے دونوں ہی فرقے
       زمین پر متحدہونے کے لیے کوشاں تھے ایسی تعجب خیز مثالیں نانک ،کبیراور وشنوﺅں کی تعلیمات میں پائی جاتی ہیں اگر ہمارا تعلیم یافتہ اعلیٰ
        طبقہ سماجی ارتقا کے راستے تلاش کرنے کی کوشش کرے جو عام لوگوں میں ہورہا تھا تو وہ پائیں گے کہ ہندو مسلم اتحاد اور بھائی چارے کو
        مضبوط بنانے کی کوشش ان کی بنیادمیں شامل ہے ۔“(15)
       اس کی مثال ہمیں ٹیگور کی حیات کے اس پہلو سے ملتی ہے کہ بنارس ہندو یونیورسٹی کا نام ہندو یونیورسٹی نہ ہو اس کے ساتھ ایک الگ مسلم یونیورسٹی کے قائم کیے جانے کے وہ حق میں تھے ۔ اور” تنوبودھی “نامی پتریکا میں اس کی تائید بھی کی وہ نہ صرف اجتماعی اتحاد کے لئے کوشاں تھے بلکہ انفرادی اتحاد پر بھی ان کی نظر رہی چنانچہ مہا تما گاندھی اور امبیڈکر کے درمیان ہوئے اختلاف کو ختم کرانے میں بھی آپ نے بہت اہم کردار ادا کیا ۔
    ۱۳۹۱ءمیں جب تحریک عدم تعاون اپنے شباب پر تھی تو ٹیگور کو لگا تھا کہ آزادی قریب تر ہے اور انھوں نے اس تعلق سے ہونے والی آپسی رنجشوں اور تقسیم کو بھی محسوس کرلیا تھا اور کہا تھا:
          ”۔۔۔۔کہ ہمارے لیے وہ گھڑی امتحان کی گھڑی ہو گی آﺅ ہم ابھی سے تیار ہو جائیں ،
        ہوشیار ہو جائیں تاکہ ہمارا منھ ان احمقانہ آپسی بربریت مار کاٹ کے حادثوں سے سیاہ نہ ہو جائے۔“(16)
       ٹیگور کے مذہب اور ان کے ادب نیز تمام فنون کا چاہے وہ موسیقی ہو یا مصوری ، ڈرامہ نگاری ہو یا کچھ اور خلاصہ یہی تھاکہ انسانوں کو انسانوں سے جوڑا جائے۔
     علامہ اقبال اور بچوں کے ادب کا جہاں تک سوال ہے تو آپ نے بچوں کے لیے بہت زیادہ نہیں لکھا بانگ دراکے پہلے حصہ میں کل نو نظمیں ہیں جن میں ”ایک مکڑا اور ایک مکھی ، ایک پہاڑ اور گلہری ، ایک گائے اور بکری ، ہمدردی، ما ںکا خواب ، پرندے کی فریاد ، بچے کی دعااور ”ایک پرندہ اور ایک جگنو “قابل ذکر ہیں اقبال نے بچوں کو کل یہی دیا لیکن اس کے علاوہ عہدِ طفلی ،بچہ اور شمع، محفلِ شیر خوارکے مطالعہ سے اقبال کے اندر بچوں سے ہمدردی لگاﺅ اور بچپن کے زمانے کی اہمیت کا پتہ چلتاہے اقبال نے بچوں کے لیے ۱۰۹۱ءسے ۵۰۹۱ءتک لکھا اس کے بعد اس جانب توجہ نہیں دی اقبال کے معاصرین میں مولانہ محوی صدیقی ، مولانا شفیع نیر اور حامد اللہ افسر وغیرہ نے بچوں کے ادب میں کافی اضافہ کیا لیکن علامہ نے جتنا کام کیا اس کی حقیقت اپنی جگہ مسلّم ہے انھوں نے بچوں کی نفسیات ان کی فطرت کو بہت باریکی سے دیکھا ہے اقبال نے اپنی نظموں میں زندگی کے حقائق بیان کئے ہیں اور محفل ِ دنیا کو بے پایاں حسن میں ڈوبا بتایا ہے علامہ کی مذکورہ بالا سات نظموں میں پہلی چھ ماخوذہیں اور انگریزی ادب سے خوبصورت ترجمہ ہےں۔
    ٹیگور نے بھی بچوں کو اپنی بیشتر تخلیقات میں مرکز بنایا ہے اور ان پر خصوصی توجہ بھی دی ہے خواہ وہ شاعری ہو یا ڈرامہ کہانیاں ہوں یا مصوری اور سنگیت انھیں نظر انداز نہیں کیا شاعری میں بچوں کے لیے ان کے چار مجموعے شائع ہوئے ہیں ۔ جن میں بچوں کی نفسیات کا تجزیہ ہے اور خود ٹیگور کا بچپن جھلکتا ہے شیشو،شیشو بھالہ ناتھ، کوڑی و کومل اور کایں جھاڑا وغیرہ کا نام اس سلسلے میں قابل ذکر ہے۔ ۱۳۹۱ءمیں انھوں نے ایک نظم انگریزی میں The Childلکھی ، ناولوں میں بچوں کا ذکر کم ہے لیکن انھوں نے بچوں کے لیے کہانیاں لکھی ہیں اور اس میں خالص بچوں کو مرکز بنایا ہے اس کے علاوہ ان کی کہانی Home Comingاردو میں” چھٹی “کے عنوان سے اور بھکار ن بھی بچوں کے لیے ہی ہیں قابلی والا میں بھی ٹیگور بچوں کے ادیب نظر آتے ہیں ۔ گھا ٹ کتھا میں بچوں کی شادی پر انھوں نے خصوصی طور پر آواز اٹھا ئی ہے اسی طرح بچوں کے لیے لکھی گئی کہانیوں میں ان کے مسائل کو بھی اٹھا تے ہیں ان کی کہانیوں میں حقیقت رومانیت اور غنایت کا حسین امتزاج ہے جس سے وہ حسن و خیر اور صداقت کے نظریے کو فروغ دیتے ہیں بچوں کے لیے لکھا گیا ان کا ادب فہم کوہی نہیں دل کو بھی اپیل کر تاہے ۔ڈبلیو ۔بی ایٹس کے بقول:
          ”در حقیقت ٹیگور جب بچوں کی بات کرتے ہیں تو ان کی فطرت اورفطرت
       کا ایسا جزو معلوم ہوتی ہیں کہ یہ اندازہ کر نا مشکل ہو تا ہے کہ یہ سنتوں کی بات تو نہیں کر رہے ۔“(17)
    اس طرح دونو ں (ٹیگور اور اقبال) نے جہاں بچوں کی ذہنوں کی آبیاری کی ہے۔وہیں بڑوں کے لئے ان کا ادب باعث افتخار سرما یہ رہا ہے۔
    اب ہم اس مسئلے پر گفتگو کر یں گے جو حساس کے ساتھ سنجید گی سے غور کر نے کے قا بل بھی ہے۔ ۴۱،۵۱ اگست کی درمیانی شب جب ہندستان کی آزاد مجلس قانون ساز میں آزاد ہندستان کا ترنگا جھنڈا پیش کیا گیا تو محترمہ سوچیتر ا کرپلانی نے اقبال کا ترانہ ہندی گایا اس وقت تک ہندستان کے قومی گیت کا فیصلہ نہیں ہوا تھا پھر اس کے ۷۱ سال بعد پنڈت نہرو کی راکھ سنگم (الہ آباد)میں ڈالی جا رہی تھی تو کسی کو پھر اقبال کاترانہ ہندی یادآگیا یہ شعر پھر فضا میں گونجا ۔ لیکن اس کے باوجود آزادسیکولر ہندستان میں اس عظیم شاعرکو نظر انداز کیا گیا ۔۸۴۹۱ء میںبنگال کمیو نسٹ رہنما بھوانی سین نے انتہا پسندی میں ٹیگور کو رجعت پرست ثابت کر دیا اور ایک پورا گروہ اس پر ایمان لے آیا بھلا اقبال اس شر سے کیسے محفوظ رہ سکتے تھے ان پر بھی ایک گروہ نے سیا ست کے نشے میں مسلم فرقہ پرست ہو نے کا الزام لگایا اور انھیں قابل مذمت قرار دیا اور یہ بات پچیس سال تک مستندسمجھی جاتی رہی شاید یہی وجہ ہو کہ اقبال کا ترانہ ہندی ترانہ قومی نہ بن سکا ۔
    سید ظفرہاشمی نے لکھا ہے کہ لالہ ہر دیال جو ایک محب وطن تھے جن کو انگریزوں نے کچھ عرصہ کے لیے ملک بدر کر دیا تھا اس زمانے میں وہ اسی گورنمنٹ کالج کے طالب علم تھے جہاں اقبال لکچرر کے عہدے پر فائزتھے اس زمانے میں وہاں صرف ایک کلب تھا Young Men's Chiristian Associationاس کے با لمقابل ہردیال نے کچھ وجوہات کی بنیاد پر Young Men's Indian Association قائم کی اور اس کے جلسہ میں اقبال کو صدارت کے لیے بلایا اقبال کودعوت افتتاحی تقریب سے چند گھنٹے قبل دی گئی تھی اقبال نے تقریر کرنے کے بجائے ”سارے جہاں سے اچھا ہندستاںہمارا “ترنم سے پڑھ کر سنایا تو لوگ مسحور ہو گئے لوگوں کو حیرت تھی کہ اقبال نے دل کو چھونے والا یہ ترانہ اتنے مختصر وقفے میں کیسے لکھا ؟
    ظاہر ہے اس ترانہ کے پیچھے اقبال کے اندر حب الوطنی کا جذبہ کار فرما تھا جس کا اظہار انھوں نے اس سچے جذبے کے ساتھ کیا تھا یہ جذبہ اقبال کی اسی نظم میں نہیں دکھائی دے رہاہے بلکہ ”آفتابِ صبح “صدائے درد“آفتاب ایک آرزو“ ترانہ ملی “سید کی لوح تربت پر” سرگذشت آدم ”ترانہ ہندی ”صبح کا ستارہ”ہندستانی بچوں کا قومی گیت “نیا شوالہ اور پرندے کی فریاد میں بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہے یہی وجہ ہے کہ گاندھی جی نے ترانہ ہندی سے متاثر ہو کر کہا تھا:
        ”کون سا ہندوستانی دل اقبال کا سارے جہاں سے اچھا سن کر دھڑکنے نہ لگے گا ؟
       اگر کوئی ایسا ہے تو میں اسے بد قسمت سمجھوں گا اقبال کے ترانے کی زبان ہندی ہے ہندستانی ہے
       یا اردو ہے کون کہے گا کہ یہ ہندستان کی قومی زبان نہیں ہے ؟ یا یہ کہ یہ زبان شیریں نہیں ہے؟یا یہ کہ
      بلند ترین خیالات کا اظہار نہیں کرتی آخر میں چاہے اکیلا ہی اس بات کو کہوں میں پوری صفائی سے کہتا ہوں
      کہ بالاخر اس مقابلے میں سنسکرت آمیز ہندی اور نہ فارسی آمیز اردو کامیاب ہو گی صرف ہندوستانی ہی یہ مقام حاصل
      کر سکے گی صرف اس وقت جب ہم اپنے اندرونی مناقشات ختم کر دیں ہم ان مصنوعی تنازعات کو بھول جائیں گے
      اور انھیں پیدا کر نے کے لیے شرمندگی محسوس کریں گے“(18)
     ان سارے خصائص کے باوجود ۴۲جنوری ۰۵۹۱ءکو آئین ساز اسمبلی نے بالاتفاق ٹیگور کے گیت کو آزاد ہندستان کے قومی ترانہ کا درجہ دیا اور اقبال نے جو مہاتما بدھ کے لیے کہا تھا اس کا اطلاق خود انھیں پر صادق آ گیا:
           قوم نے پیغام گوتم کی ذرا پروا نہ کی        قدر پہچانی نہ اپنے گو ہرِ یک دانہ کی
       برہمن سرشار ہے اب تک مئے پندار میں    شمع گوتم جل رہی ہے محفل اغیار میں
    اقبال کا ترانہ ”سارے جہاں سے اچھا ہند ستاں ہمارا “ ہندستان سے آدمی کے رشتے کو کس قدر جوڑتا ہے کتنی سچائی کے ساتھ اس کی خو ب صورتی کواقبال نے پیش کیا ہے جبکہ ٹیگورکے گیت پرلوگوں نے کئی اعتراضات ظاہر کئے ہیں اور مداحینِ ٹیگور نے اس کو رفع کر نے کی کو شش بھی کی ہے۔اول یہ کہ یہ خالص حمدیہ گیت ہے ۔دوم اس میںانگریزوں کی عمل داری والی ریاستوںکا ذکر ہے سوم یہ کہ یہ جارج پنجم کی شان میں لکھا گیا قصیدہ ہے۔اور اعتراض کیوں نہ ہو جبکہ اس گیت کے بول کا مطلب ہی دو معنوی ہے پانچ بند والی اس نظم کا پہلا بند قومی گیت کے لیے شامل کیا گیا اب اس کا مطلب دیکھتے ہیںذہن میں شہنشاہ برطانیہ کوملحوظ رکھیئے جس کی ابھی ابھی تاج پو شی ہوئی ہے اور وہ ہندستان کے دورے پرآیا ہوا ہے:
          ” جن یعنی شخص، گن یعنی عوام اور من یعنی دل میں تمہارے حکم کو بجا لاتا ہوں
       (اس کو حمدیہ گیت کی شکل میں دیکھنے کی وجہ سے بعض نے عبادت کرنے کابھی ترجمہ کیا ہے )
      تم ہی ہو جو عوام کے دلوں میں بستے ہو اور حکومت کرتے ہو ہندستان کی تقدیر کے خالق تم ہی ہو ،
       تمہارے نام کے ساتھ پنجاب، سندھ گجرات ، مراٹھا ،دراو ڑ اور اڈیسہ و بنگال کے لوگ بیدار ہوتے ہیں
       وندھیہ اور ہماچل کی پہاڑیوں تک تمہارا نام گونجتا ہے گنگا اور جمنا کی موجوں میں تم رہتے ہوہم تم سے ہی
      عقیدت کے طالب ہیں اور تمہاری تعریف کرتے ہیں تم ہی لوگوں کے محافظ ہو اور ہندستان کی تقدیر کے خالق بھی۔ “(19)
    اس گیت کا ترجمہ لوگوں نے اپنے مقصد کے تحت کیا ہے اورآخری بند میں جہاں لوگوں کا یہ خیال ہے کہ شاعر کی آرزو مجسم شکل اختیار کر لیتی ہے وہیں جارج پنجم کو ذہن میں رکھیں تو سمجھ میں آتا ہے کی عمل تاج پوشی اورآپ کی آمدسے شب تاریک ختم ہو رہی ہے افق کے کناروں پر روشنی کی کرنیں نظر آرہی ہیں پرندوں نے نغمہ سرائی شروع کر دی ہے
ظاہر ہے ایسے بند میں شبہات کا پیدا ہونا ضروری تھا اور اخبارات نے جہاں اس بات کی تشہیر کی ہوکہ یہ مدحیہ نظم ہے یہ بات اور مستحکم ہو جاتی ہے ۔اور نوبل کے بعد تو لوگوں نے بالخصو ص اپنی طرح اس نظم کا ترجمہ کیا ظاہر ہے اس وقت ٹیگور کو نوبل انعام نہیں ملا تھا نوبل انعام کے بعد اس گیت پر صفائی دی جانے لگی ٹیگور کے لیے یہ کہا جاتا ہے کہ وہ جارج پنجم کی تعریف کیوں کریں گے ؟ بلا شبہ آدمی کسی کی تعریف اس سے نوازشات و اکرام پانے کے لیے کرتا ہے اور ٹیگور نے لوگوں کی دعوت قبول کرنے کے عوض ایک ہزار ڈالر کے مطالبات کیے ہیں تو جارج پنجم کی تعریف میں انھیں وقار وتعظیم کے علاوہ آگے چل کر جو نوبل میں سیاسی فائدہ ہوااس کو لوگ کیسے بھول سکتے تھے اور نائٹ ہڈکا جارج پنجم کے ذریعہ دیا گیا خطاب بھی ایسے میں اعتراضات کا ہو نا لازمی تھا پھر بھی ان تمام کے باوجود اس کو قومی ترانہ بنایا جانا بہر حال لوگوں میں یہ سوال قا ئم کر تا ہے کہ اقبال کا ترانہ قومی ترانہ کیوں نہیں ہو ا؟یہ بھی ممکن ہے کہ لوگوں کے ذہن میں یہ بات رہی ہو کہ مصرعہ
       اے آب رود گنگا وہ دن ہے یاد تجھ کو     اترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا
میں اقبال نے مسلمانوں کے قافلے کی ہندستان میں آمد کی بات کی ہے وہی بات جو مولانا آزاد نے جامع مسجد میں اپنی ایک تقریر میں کہا تھا اس لیے ان کو نظر انداز کیا گیا اگر اقبال کا ترانہ اس وجہ سے نظر انداز کیا گیا تو پھر ٹیگور کا گیت ان تمام وجوہات پر کیوں نظر انداز نہیں کیا گیا؟ اگر ٹیگور ،سوامی وویکا نند اور آروبندوگھوش کی حب الوطنی میں ہندو روحانیت کی آمیزش کے باوجود اس کو قبول کیا گیا تو اقبال کی حب الوطنی میں اسلامی روحانیت کی آمیزش کے باوجود اس طرح سے نظر انداز کئے جانے کا کیا مطلب ؟ ایک سیکولر ملک میں ایک شخص محب وطن ہے تو دوسرا اجنبی کیوں ؟
    ”ہندستان میں اقبالیات “ میں پروفیسر جگن ناتھ آزاد نے ایک بات کہی ہے جو انتہائی حسّاس ہے اور ہندستان کی گنگا جمنی تہذیب کو داغ دار کرنے کی لیے کافی بھی ہے اور شاید بہت سارے سوالات کے جواب یہاں مل جاتے ہیں اور کچھ سوالات قائم بھی ہوتے ہیں ۔ لکھتے ہیں کہ کیسکر جو وزارتِ اطلاعات میں کام کر رہے تھے انھوں نے اقبال کے کلام کو آل انڈیا ریڈیو پر پیش کئے جا نے پر پابندی عائد کر رکھی تھی ارجن سنگھ (وزیر اعلیٰ مدھیہ پردیش ) جن کے نام پر جامعہ ملیہ اسلامیہ نے ارجن سنگھ مر کز برائے فاصلاتی تعلیم بنایا ہے ، نے اقبال سمان کی بنیاد ڈالی اور اردو کے بہترین ادیب و شاعر کو ایک لاکھ روپیہ دینے کا اعلان کیا تو وزیر اعلیٰ سابق سندر لال پٹوا نے اس سمان کانام تبدیل کر کے اس سمان سے اقبال کا نام حذف کرنے کی بات کی ،قوی امکا ن ہے کہ اقبال کا قومی ترانہ نہ بننے کی ایک و جہ یہ بھی رہی ہو یہاں اقبال کی وکالت نہیں کی جا رہی ہے لیکن یہ بات ضرور ہے کہ جو مرتبہ اقبال کو ملنا چاہئے وہ نہ مل سکا تا ہم ان تمام مخالفتوں اور شدت پسندی کے باوجود اقبال کا ترانہ لوگوں کی زبان پر آہی جا تا ہے ۔
    اب رہی نوبل کی با ت تواقبال کونوبل تو کیا کوئی بین الاقوامی ایوارڈ نہیں ملا اقبال کی تربیت میں اسلامی علوم و روایت کے ساتھ ساتھ جرمن فکروادب کا سب سے زیادہ حصہ تھا وہ کانٹ ، ہیگل ، فشٹے اور نطشے کے فلسفوں سے سیراب ہوئے اور گوئٹے ، شلزاور ہائنے کے شعرو فن سے بھی سرشار ہوئے ۔۵۰۹۱ ءکے بعد اقبال کی شاعری میں ایک نیا انقلاب پیدا ہوا اس سے پہلے ان کی شاعری میں میں بچوں کے لیے لکھی ہوئی ماخوذ نظمیں ، غزلیں ،گل وبلبل ، حسن و عشق کا تذکرہ ہجر وصال اور لب و رخسار کی باتیں تو ملتی ہیں مگر یورپ کی سیر کے بعد ان کے خیالات میں تبدیلی ہوئی ظاہر ہے وہ اس سے قبل عطار ،رومی رازی اور غزالی سے متاثر تھے اور جرمن فکرو ادب کے مطالعہ کے بعد ان کے اندر مسلمانوں کی عظمت رفتہ کو واپس دلانے کے جذبے نے نئی روح پھونکی ۔برطانوی وزیر اعظم ولیم گلیڈ اسٹون جو ایک مذہبی رہنما بھی تھا اس نے قرآن کو اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر کہا تھا :
           ”جب تک یہ کتاب باقی ہے دنیامیں امن قائم نہیں ہو سکتا ۔“
    اقبال کو ان تمام حالات سے اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ مغرب اسلام کے در پہ ہو گیا ہے اقبال نے محسوس کر لیا تھا کہ مشرق کا اقتصادی استحصال کرنے کے بارے میں مغرب کے منصوبے اتنے ہی خطرناک ہیں جتنا ان کا سیاسی اقتدارچنانچہ لاہور میں معلمی کے فرائض انجام دیتے ہوئے اقبال نے سیاسی اقتصادیات پر ایک کتاب بھی لکھی تھی تاکہ عوام خود کفیل ہو۔ ۲۰۹۱ءمیں سریندر ناتھ بنرجی نے بھی آواز لگائی اور اس تحریک کی حوصلہ افزائی سب سے زیادہ بنگال سے ہوئی ۔ اقبال نے اردو اخبار ”زمانہ “میں ایک انٹر ویو میں کہا تھا کہ” ملک کوئی سیاسی آزادی نہیں حاصل کر سکتا جب تک اس کی اقتصادی حالت نہ سنبھل جائے“ ۔
     اقبال نے فرنگیوں کے ذریعہ چلائی جانے والی کسی تحریک میں حصہ نہیں لیا عبداللہ سہروردی اور امیر علی نے اسلام کے خلاف الزامات کی غلط فہمیوں کے ازالہ کے لیے سو سائٹی قائم کی تو اقبال نے اس کی ممبری قبول کر لی اور طاقت کے نشے میں چور اہل مغرب کو دندانِ شکن جواب دیا ایسے حالات میں اقبال کو نوبل تو کیا نوبل کے لیے ان کا نام تک تجویز نہیں کیا جا سکتا تھا ۔
     رہاٹیگور کا سوال تو ان کو ۴۱نومبر ۳۱۹۱ءکو نوبل پرائز ان کی تصنیف ”گیتانجلی “پر ایک لاکھ بیس ہزار کی رقم ملی ان کو گیتانجلی پر نوبل کا ملنا اب تک ایک ایسا معمہ ہے جس کی کڑیاں لوگوں نے کھولنے کی کوشش کی ہیںان کا ماننا ہے کہ اس وقت بہت سے شعرا موجود تھے مثلاً ڈبلیوبی ایٹس ، ازراپاﺅنڈ ،انس منیل، ہنری ٹیوئس ، ولیم ایٹس وغیرہ پھر ٹیگور کو نوبل دیے جانے کا جواز کہیں کوئی سیاسی مسئلہ تو نہیں ؟۔
پروفیسر شہزاد انجم نے بھی اس پر سوال قائم کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ”اس کے پیچھے عیسائی مشنریوں کا مفاد تو پوشیدہ نہیں تھا؟“ (20)
اہل علم کا کہنا ہے کہ ٹیگور نے اپنے نوبل کے لیے راستے ہموار کر لیے تھے آسٹریلیا کے علاوہ وہ تمام برّ اعظموں کا دورہ کر چکے تھے اور تمام بڑی شخصیات اور بڑے لوگوں سے ان کی ملاقاتیں بھی ہو چکی تھیں ان کے دل میں اپنا تاثر بھی چھوڑ چکے تھے چنانچہ ان کا نام آتے ہی سیاسی اور شخصی دباﺅنے نوبل ٹیگور کے ہاتھ میں تھما دیا اور اسے امن و شانتی کا نشان قرار دیا گیا بہر حال برطانوی حکومت کے خلاف بنگال سے اٹھنے والی زبردست بغاوتوں کاثبوت اور ٹیگور کا اثر عوام پر نیز نوبل انعام دیکر عوام کو اپنے تعلق سے نرم کر نے کے مغربی رجحان کو بھی اس پس منظر میں ذہن میں رکھنا چاہئے ۔
     ایک جواز جونوبل کمیٹی ’سویڈش اکیڈمی کے چیر مین HeraldHijarneنے دی تھی ان کی سفارش میں ایک لفظ قابل غور ہے انھو ں نے لکھا تھاکہ:
        ”انھوں(ٹیگور) نے ملکہ الزبیتھ کے دور ہی سے برٹش تہذیب کی توسیع میں تعاون کر نے سے کبھی گریز نہیں کیا “(21)
  اب نوبل کمیٹی کے سفارشات بھی ملاحظہ ہوں
    (22) ”....Expressed in his own English words a part of the literature of the west.“
 ان سب کے علاوہ ٹیگور نے اپنی شبیہ کو صاف ستھرا بنائے رکھا اور ہر طرح کی سیاسی آزمائشوں سے دور رہے پروفیسر شہزاد انجم نے مزیدلکھا ہے کہ:
         ” اس زمانے میں پنڈت بال گنگا دھر تلک نے ٹیگور کو ہندستان کا روحانی سفیر منتخب کیا ۔
         انھیں پچاس ہزار رپئے بھجوائے کہ ٹیگور دنیا کے مختلف ممالک کا سفر کریں اور سیاست کی گفتگو تج کر
         روحانیت کی باتیں کریں تا کہ ہندستان کا ایک واضح نقشہ دنیا کے سامنے آسکے۔“(23)
          اس طرح سیاسی ،سماجی اورروحانی طور پر بھی ٹیگور کا نام نوبل کے لیے آنا کوئی حیرت کی بات نہ تھی ۔اب جب کہ اس بات کو ایک صدی گذر چکی ہے ماہرین اور اہل علم کے دل میں یہ سوال ضرور گھر کرتا ہے کہ فلسفہ اقبال میں وہ کیا کمی تھی جس کو گیتانجلی نے پورا کر دیا تھا اور اسے نوبل انعام سے نوازا گیا بہر حال اقبال جیسا شاعر نوبل نہ پا کر بھی اس سے بے نیاز اور اوپر ہے اس کی عظمت کسی نوبل کی محتاج نہیں اور نوبل کسی عظمت کا پیمانہ بھی نہیں ہاں لیکن یہ بات ضرور رہے گی کہ اقبال کو ایک بھارت رتن بھی نہیں ملا اس سر زمین میں جہاں وہ پیدا ہوا اسی نے اس کی عظمت کا حق نہ دیا تو نوبل بہت دور کی بات تھی حالانکہ اقبال کی وفات کے دس سال بعد پاکستان وجود میں آیا اقبال نے نہ ہندو ¿ں کو گالیاں دیں نہ ان کے خلاف معاندانہ عمل کی حو صلہ افزائی کی دراوڑ منتر اگزہا گام کے بانی سی این انادرائی (ڈی ایم کے)نے ہندو تہذیب پر زبر دست حملہ کیا اور تمل ناڈو کی ہندستان سے علاحدگی کا کھل کر مطالبہ کیا ان کے جانشین ایم پی رام چندرن نے بھی ان کی حمایت کی اس کے علاوہ بی آر امبیڈکرجو جمہورےت کے داتا ہیں نے بھی ہندو تہذیب کی زبر دست مذمت کی مگر پھر بھی دونوں کو بھارت رتن سے نوازا گیا جبکہ اقبال کی عظمت کے بارے میں خود سبھاش چندر بوس نے کہا تھا:
        ”انھوں نے اخیر میں ایسے سیاسی نظریات اختیار کر لیے تھے جن کے بارے میں ہم میںسے بہت سارے لوگ ان
        کے ساتھ متفق نہیں ہو سکے تھے لیکن ان کے نظریاتی خلوص پر کسی نے شک و شبہے کا اظہار نہیں کیا“ ۔(24)          
جواہر لال نہرو نے کہا تھا:
       ”ان کے زبردست ذہانت اور آزادی ہند کے بارے میں ان کی لگن سے وہ انتہائی متاثر ہوئے تھے۔ “(25)
 سروجنی نائڈو نے بھی ان کی خوب تعریف کی ہے ان کے بارے میں مشہور اخبار ٹائمس آف انڈیا نے لکھا تھاکہ :
       ”ان کی طاقت کا رازایک معلم یا مفکر ہونے میں نہیں بلکہ انسانیت کا پیغبر ہونے میں پوشیدہ ہے۔ “(26)
 ان تمام خوبیوں کے باوجود اقبال نوبل تو کیابھارت رتن سے بھی محروم رہا۔
    خیر جو بھی ہو جامعہ ملیہ اسلامیہ سے اقبال کا دلی تعلق تھا جامعہ نے اگرچہ ترک موالات کے آغوش میں آنکھیں کھولیں جس کے علامہ حامی نہیں تھے مگر اس کے باوجود وہ جامعہ کے لیے متفکر رہے اور اس سے عقیدت واحترام رکھتے تھے مختار احمد انصاری کی دعوت پر علامہ طبیعت کی نا سازگی اور گردے اورآنکھوں کی تکلیف کے با وجودفروری ۳۳۹۱ءکو جامعہ تشریف لائے اور ترکی کے مشہور مجاہد آزادی اور جنگ بلقان کے ہیرو غازی رو ¿ف پاشا (جوبعد میں ترکی کے وزیر اعظم بن گئے )کے دوسرے اور تیسرے لیکچر کی صدارت فرمائی جس کا موضوع” قوم پرستی اور اسلامی اتحاد تھا “ اسکے ایک ماہ بعد ذاکر صاحب کی درخواست پر پھر آپ جامعہ تشریف لائے اور اساتذہ اور طلبا سے خطاب کیا اس موقعہ پر آپ نے ”لندن سے غرناطہ تک “کے سفر اور برگسا ں سے ملاقات کی تفصیل بھی سنائی اس سفر کے دوران اقبال نے جامعہ کی انجمن اتحاد کی رکنیت بھی قبول کی اور سپاس نامہ میں حوصلہ افزاکلمات ارشاد فرمائے ۔جامعہ ملیہ اسلامیہ کے لیے علامہ نے امداد کی کئی اپیلیں بھی کی تھیں ۵۲فروری۵۳۹۱ءمیںان کی ایک اپیل انقلاب لاہور کے شمارے میں بھی چھپی تھی آپ نے لکھا تھا:
        ”مجھے یہ سن کر نہایت خوشی ہوئی ہے کہ جامعہ ملیہ کی عمارات کاسنگ بنیاد نصب ہونے والا ہے ۔ میں ان تعلیمی
      مجاہدوں سے جنھوں نے مسلمانوں کی تعلیم اصلاح وترقی کا علم بلند کیا ہے ابتدا سے دلی ہمدردی رکھتا ہوں چنانچہ ۶۲۹۱ئ
      اور ۸۲۹۱ءمیں جو اپیلیں جامعہ کی امداد کے لیے شائع ہوئی ہیں ان پر میں نے بھی دستخط کئے تھے اس کے کار کنوں کے ایثار
      اور خلوص اور جوش عمل نے میرے دل پر گہرا اثر ڈالا مالی پریشانی اور بے سروسامانی کے باوجود ان لوگوں نے جو یہ علمی خدمات
      انجام دی ہے اس سے امید ہوتی ہے کہ اگر انھیں معمول مصارف کی طرف سے اطمینان ہوا اور رہنے کے لیے مکان مل جائے
     تو حقیقت میں ہندستان کی تعلیمی دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر دیں گے اور مسلمانوں کی زندگی میں ایک نئی روح پھونک دیں گے۔“(27)
    اس طرح علامہ کی محبت قوم و ملت کی تعلیم کے سلسلے میں ان کی تڑپ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ سے والہانہ عقیدت کا اظہار ہوتا ہے اس کی ایک عمدہ مثال اور ہے وہ یہ کہ آخری بار ۵۳۹۱ءمیں ناسازی طبیعت کے باوجود آپ جامعہ تشریف لائے اور آپ نے مشہور ترکی ادیبہ خالدہ خانم کے لیکچر کی صدارت کی لیکن ”احتباس صوت “ کے باعث آپ نے تقریر نہیں کی۔ علامہ پر جتنا وقیع حصہ یہاں کے اساتذہ اور فارغ التحصیل حضرات نے لکھا ہے شاید کسی ادارے کو یہ شرف حاصل ہو ان میں مولانا محمد علی جوہر ، ڈاکٹر ذاکر حسین ، سید عابد حسین ، پروفیسر محمد مجیب ،ڈاکٹر یوسف حسین خان ، پروفیسر مسعود حسین خاں ، مولانا اسلم جیراج پوری ، قاضی عبدالحمیدزبیری اور عبداللطیف اعظمی کے نام خصوصاًقابل ذکرہیں اس کے علاوہ بہت سارے جدید قلم کاروں نے بھی علامہ پر لکھا ہے آپ کی وفات پر جامعہ نے ”جوہر“ کا جو اقبال نمبر شائع کیا وہ معلوماتی اور مبسوط مقالات پر مبنی ہے
میرے محدود علم کے مطابق ٹیگور جامعہ کبھی نہیں آئے ۱۰۹۱ءمیں ٹیگور اپنے والد کی زمینداری سے متعلق گاﺅں شلائدہ سے شانتی نکیتن آگئے تھے اور بیس برس کی مدت میں ۱۲۹۱ءمیں شانتی نکیتن نے وشو بھارتی یونیورسٹی کی شکل اختیار کر لی چنانچہ ۰۲۹۱ءمیں دو شانتی نکیتن ہندستان میں چل رہے تھے ایک ٹیگور کا اور دوسرا جامعہ ملیہ اسلامیہ ایک دہلی میں دوسرا بنگال میں۔ ڈاکٹر ذاکر حسین ٹیگور کے شانتی نکیتن سے بہت متاثر تھے اور انھوں نے کہا تھا :
     ”شانتی نکیتن انسانی وحدت کا نمونہ ہے یہاں انسان فطرت کی گود میں رہتا ہے ۔فکر نے عمل کے کپڑے
     پہن رکھے ہیں ۔مشرق اور مغرب دونوں ایک دوسرے سے بغل گیر ہیں ۔ قدیم اور جدید دونوں میں ہم آہنگی ہے ۔
     حال نے ماضی اور مستقبل دونوں کو اپنی آغوش میں لے رکھا ہے ۔ مختلف مذہبوں اور تہذیبوں کا سنگم ہے شانتی نکیتن۔ “(28)         
     ڈاکٹر ذاکرحسین کے دماغ میں شانتی نکیتن کا طریقہ تعلیم ضرور تھا جس کو ٹیگور نے روسو سے لیا تھا کہ بچوں کی انفرادیت اورشخصیت کے نشو ونما کے لیے سماجی زندگی کو خاص اہمیت دی جائے ٹیگور نے فطرت کو بچے کا استاد مانا ہے اور فطرت میں جہاں ایک طرف قدرتی مناظر ہیں وہیں بچے کی خصلتیں اور رجحانات بھی شامل ہیں ۔ ٹیگور کا خیال تھا کہ تعلیم کے تین موثر ذرائع ہیں ایک فطرت دوسرے زندگی اور تیسرے استاد۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ نے بھی شروع سے انھیں تینوںخصائص پر زور دیا، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور بانیان جامعہ ٹیگور کے تعلیمی نظریات سے نہ صرف متاثر تھے بلکہ اس کو پسند بھی کرتے تھے انیسویں صدی کے وسط میں برطانوی حکومت نے ہندستان کی یکجہتی کی طرف سیاسی نقطہ نظر سے توجہ دی اور رفتہ رفتہ وہ ایسے نظام تعلیم کومتعارف کروا چکے تھے جس نے معنوی برائیو ں کو جنم دیا تھا مثلاً مقابلہ بازی، رشوت خوری، حسد ان چیزوں نے قومی یکجہتی کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنا شروع کردیا تھا مگر ان دو اداروں نے اس سے بے اطمینانی کا اظہار کیااور ایک عمدہ طریقہ تعلیم کو متعارف کرایا۔ٹیگور کا خیال تھا کہ تعلیم کے ماحول کو صاف ستھرا کھلا ہوا ،بارونق اور دلچسپ ہونا چاہئے جامعہ نے بھی انھیں خصائص سے آراستہ ہوکر سماج کی خدمت کی ٹیگور نے تعلیم کا مقصد فرد کو اقتصادی، ذہنی ، جسمانی،جمالیاتی، سماجی اور روحانی اعتبار سے بہتر بنایا جامعہ نے ان مقاصد کوکبھی فرا موش نہیں کیا ۔اس طرح سے شانتی نکیتن اور ٹیگور کے نظریہ تعلیم کی وجہ سے عملی اور روحانی طور پر جامعہ کا ٹیگور سے بہت گہرا رشتہ رہا اور اس رشتہ کو اکیسویں صدی میں جامعہ نے اردو داں طبقہ میں بالخصوص اور پورے ہندستان میں بالعموم ٹیگور کی زند گی ان کے کارنامے ان کے فکر و فن کے مختلف زاویوں اور نظریات سے متعارف کرا کر اور مضبوط کردیا ۔
اس طرح جہاں جامعہ کا رشتہ ٹیگور کی فکر ان کے علمی خدمات اور تعلیمی نظریات سے تھا اب ان کی روح سے بھی مزیدتر ہوتا چلا گیا ہے ۔
    علامہ اقبال اورٹیگور کے تصور تعلیم کی جہاں تک بات ہے تو سید عبداللہ نے لکھا ہے کہ اقبال نے تعلیم کے عملی پہلوﺅں پر کچھ زیادہ نہیں لکھا مگر ان کے افکار سے ایک تصور تعلیم ضرور پیدا ہوتا ہے ۔ علامہ نے ایم اے کے بعد اپنی زندگی کا آغاز بحیثیت معلم کیا اور جون ۳۰۹۱ءتک اسی خدمت پر فائز رہے ماہ نو اقبال نمبر ستمبر ۷۷۹۱ءکے شمارے میں فیاض محمود نے لکھا ہے :
        ”اقبال کے نزدیک تعلیم سے مراد انسانی قوتوں کی صحیح نشو ونما شخصیت کی اٹھان ،ذہن کی تربیت اور حیثیت اور فرد وجماعت
       سے تعلقات ، اسی پر سماج کے اثرات اور تمدن عالم اور کائنات میں انسان کی جگہ، ان سب سے متعلق آرا کی تلاش ہے ان کا کلام
       ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے جو بہت مدت تک دنیا کی رہبری کر سکتا ہے۔ “(29)
  اقبال کا تعلیم سے گہرا رشتہ رہااور انھوں نے منبع علم قرآن و حدیث کوبنایا احمد خان لکھتے ہیں:
        ”وہ صرف قدیم کلاسکی نقطہ نظر کی مذمت کرتے ہیں بلکہ جدید سائنس کے اس اولین بنیادی اصول یعنی مشاہدہ فطرت
        کو قرآنی تعلیمات اور ارشادات نبوی سے ماخوذ قرار دیتے ہیں۔ “(30)
        علامہ مغربی تعلیمات کے منفی اثرات سے بھی خبردار کرتے ہیں اور برِّ صغیر میں مسلمانوں کے تعلیمی نظام پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں :
       ”مغربی انداز کے کالج ہی نہیں موجودہ دور میں مشرقی طرز کے مکاتب و خانقاہ بھی سوزوگداز اور خلوص ومحبت کے
       جذبات اور احساسات بلند پایہ سے عاری ہو چکے ہیں ۔“ (31)
   ایک اور جگہ آپ نے لکھا ہے :
       ”شخصی طور پر میں یقین رکھتا ہوں کہ تعلیم کو مکمل طور پر لادینی بنا دینے سے کہیں بھی اور خصوصاً
      غلام ممالک میں اچھے نتائج برآمد نہیں ہوئے۔“(32)
       
   بشیر احمد ڈار کی مرتب کردہ کتاب انوار اقبال میں لکھا ہے کہ:
        ”یورپ میں تعلیم خالصتاً دنیاوی طریق پر بڑے ہی تباہی آمیز نتائج پیدا کرنے کا موجب ہوا ہے
         میں نہیں چاہتا کی میرا ملک بھی ان تلخ تجربات سے دوچار ہویہ امر صاف ظاہر ہے کی بندگان ایشیا ویورپ
        کے خالص مادی روے کو بھی فراموش نہیں کر سکتے ہمارے سامنے یہ مسئلہ در پیش ہے کہ روحانی اور مادی امور کو
        کس طرح یکجا کیا جائے ۔“(33)
 یہی وجہ ہے کہ علامہ ایک ایسی یونیورسٹی چاہتے تھے جہاں اسلامی نقطہ نظر سے تعلیم وتعلم کا عمل جاری ہو جس کا اظہار مقالات اقبال میں سید عبد الواحد معینی نے ص۴۳۱ پر کیا ہے اسی طرح ٹیگور بنارس یونیورسٹی کا نام ہندو یونیورسٹی اور ایک مسلم یونیورسٹی قائم کئے جانے کی حمایت میںتھے اور دونو ں یونیورسٹیوں کے الگ الگ قیام کی تائیدپرآپ نے زور بھی دیا
      بہر حال علامہ کی طرح ٹیگور بھی تعلیم کے سلسلہ میں اپنی ایک رائے رکھتے تھے اسی لیے انھوں نے فطرت کو بچے کا استاد مانا اس کی صحیح نشو ونما کے لیے سماجی زندگی کو اہمیت دی وہ تعلیم کے ذریعہ ایک وسیع القلب ، وسیع النظر ، مظاہر قدرت و فطرت کی نیرنگیوں سے لطف اندوز ہو نے کی صلاحیت رکھنے والا انسان بنانا چاہتے تھے انھوں نے تعلیم برائے اشتراک عمل پرخصوصی توجہ دی اور پوری تعلیم مادری زبان میں دیے جانے کے حق میں تھے بچوں میں اظہار ذات حقوق وجذبات کا پاس رکھتے ہو ئے منظم انداز میں کا م کر نے کی ترغیب دینے کے قائل تھے ۔اپنے عہد کے تعلیمی خاکے کے بارے میں انھوںنے کہا ہے کہ:
       ”ہم اس طرح مدرسوں میں چپ چاپ بٹھائے جاتے تھے جیسے کسی میوزیم کے اندر مورتیاں رکھی ہوں
      اور پھر ہم پر سبقوں کی مار اس طرح ہوتی تھی جیسے ننھے منھے پھولوں پر اولوں کی بارش “۔(34)
 مدرسوں اور کالجوں کے تعلیمی صورتحال کی تصویر انھوں نے ان الفاظ میں کھینچی ہے:
© ©      ”یہ گویا تعلیم کے کار خانے ہیں جن میں زندگی اور رنگ نام کو نہیں، جنھیں اپنے گرد وپیش کی کائنات سے
      کوئی تعلق نہیں اور جن کی سفید سفید دیواریں اس طرح دکھائی دیتی ہیں جیسے کسی مردہ کی پھٹی ہوئی آنکھیں۔“ (35)
     اس طرح ٹیگور اور اقبال نے نہ صرف مروجہ تعلیم کو بہت باریکی سے دیکھا بلکہ ان کو بہتر بنانے کے لیے اپنے نظریا ت بھی پیش کیے ٹیگور کے بارے میں تو یہاں تک آتا ہے کہ شانتی نکیتن کی سہولیات کو عمدہ بنانے کے لیے انھوں نے دور درازممالک کے اسفاربھی کیے ۔
     الغرض زیر نظر مقالہ میں ان ہی پہلوﺅں پر روشنی ڈالی گئی ہے جنھوں نے ان شخصیات کوممتاز، منفرد اور عظیم بنایاتا ہم جہاں ان کے تصور خدا ، حیات ، کائنات، مذہب ،عقیدے، تعلیم اور بچوں کے ادب کو شا مل کیا گیا ہے وہیں نوبل انعام ،تصور وطن، اقبال ٹیگوراور جامعہ کے علاوہ متفرق مسائل پر اختصار سے کام لیا گیا ہے جن سے پتہ چلتا ہے کہ ان دونوں ذہنوں نے علمی و فکری طور پر کس طرح سے لوگوں کو متاثر کیا اور نہ صرف متاثر کیا بلکہ سماجی اور سیاسی تقویت بھی پہنچائی جس کا اعتراف پوری دنیا نے کیا امریکن ادیب ویل ڈیورانٹ نے اپنی کتاب ٹیگور کو روانہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ :
“You are the reason why Indian should be free". (36) 
     پرویز شاہدی ”جو بنگال کے اردو شاعر اور ٹیگور کے ہم عصر تھے “نے ٹیگور کی عظمت میں لکھا ہے کہ :
         ”جبین ہند پر تاباں جو عظمت کے ستارے ہیں
        وہ انگارے ہیں گیتوں کے وہ شعروں کے شرارے ہیں
           وہ نورانی کنائے ہیں وہ روشن استعارے ہیں
           تیرے ہی دل کے ٹکڑے ہیںترے ہی فکر پارے ہیں
    صدی گذر گئی دونوں کی عظمت کوقوموں ،زبانوں ،سرحدوں، نسلوں اور فرقوں کی زنجیر میں جکڑنے کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہو سکی دونوں Timelessہیں تخیلات سے پرے ہیں۔ اقبال کو کیا کہا جائے اس نے نہ صرف زبان کو زندہ کیا بلکہ قوموں میں زندگی کی روح پھونکی جب تک اقبال ہیں زبان زندہ رہے گی اور جب تک زبان ہے اقبال پڑھاجاتا رہے گا۔
    کسی بزرگ نے کہا تھا کہ ہندو اور مسلمان ہندستان کی دو آنکھیں ہیں یہی بات ٹیگور اور اقبال پر صادق آتی ہے جنھوں نے ہندستانی زبان وادب اور تہذیب وثقافت کو بینائی دی ۔ جس طرح آنکھوں کے بغیر انسان ادھورااور اس کی دنیا اندھیری و تاریک ہے اسی طرح ٹیگور اور اقبال کے بغیر ہندستانی ادب اور تہذیب و ثقافت ہے دونوں کا کوئی موازنہ نہیں دونوں انسانیت کے بے لوث خادم تھے محسن تھے ان کے کارنامے انسانی عظمت کی میراث ہیں ۔ دونوں ہمیشہ زندہ ہیں اور آنے والی نسلوں کو مہمیز کرتے رہیں گے ٹیگور نے کہا تھا:
موت سے جس زندگی کی قیمت ادا کرنی پڑے
وہی زندگی
اس لافانی دنیا میں
موت پر فتح پا لیتی ہے
اور اقبال کا یہ شعر چلنے والے قافلوں کے لیے جرس کا کام کرتارہے گا کہ:
    اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر         بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں
    اس چمن کو سبق آئین نو کا دے کر         قطرئہ شبنم بے مایہ کو دریا کردیں
    دیکھ یثرب میں ہوا ناقہ ¿ لیلٰی بے کار         قیس کو آرزوے نوسے شناسا کر دیں
    گرم رکھتا تھا ہمیں سردی مغرب میںجو داغ      چیر کر سینہ اسے وقف تماشہ کردیں
             شمع کی طرح جیئں بزم گہہ عالم میں
          خود جلیں دیدئہ اغیار کو بینا کر دیں
حوالہ جات  
۱۔ قومی راج ،اقبال نمبر،ممبئی دسمبر ۷۷۹۱ئ
۲۔ Iqbal:The poet and politicion R. Zakaria. p27
۳۔ اقبال شناشی ،علی سردار جعفری : دیباچہ ،مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ۱۱۰۲ئ
۴۔ لندن ،۹۵۹۱،ص۸۹۲
۵۔فکرِ اقبال کے بعض اہم پہلو ،مضمون محمد مظہر الدین صدیقی، ص۱۸۱، شاہین بک اسٹال کشمیر ۲۸۹۱ئ
۶۔ ٹیگورشنا شی ،شمیم طا رق ،ص۹۵،ٹیگور ریسرچ اینڈ ٹرانسلیشن اسکیم ،جامعہ ملیہ اسلا میہ۳۱۰۲ئ
۷۔رابندر نا تھ ٹیگور :فکر وفن ،ص۶۵۵،ٹیگور ریسرچ اینڈ ٹرانسلیشن اسکیم ،جامعہ ملیہ اسلا میہ۳۱۰۲ئ
۸۔ اقبال فن اور فلسفہ : پروفیسر نورالحسن نقوی، ص ۵۲۱،ایجوکیشنل پبلیشنگ ہا ﺅس دہلی،۰۱۰۲ئ
۹۔ رابندر نارتھ ٹیگور : فکروفن ص۹۱
۰۱۔ہندوستان میں اقبالیات آزادی کے بعد : جگن ناتھ آزاد ص۷۶۔مکتبہ علم ودانش لاہور ۹۸۹۱ئ
۱۱۔ اقبال سب کے لیے © ©،ڈاکٹر فرمان فتح پوری ،ص ۹۶،ایجوکیشنل پبلیشنگ ہا ﺅس دہلی ۰۰۰۲ئ
۲۱۔ رابندر ناتھ ٹیگور فکروفن :ایضاً ص۷۷۲
۳۱۔اقبال سب کے لیے ،ایضا © ©،ص ۳۱۵
۴۱۔ رابندر ناتھ ٹیگورفکروفن ایضاًص۴۔۳۰۵
۵۱۔رابندر ناتھ ٹیگور سودیشی سماج کلکتہ، ص۱۳،اگست ۴۰۹۱ئ،شتابدی سنسکرڈسمپورن کرتیاں،کھنڈ۔۲۱
۶۱۔ رابندر ناتھ ٹیگور ہندو مسلمان ،شتابدی سنسکرڈ، ص۳۱
۷۱۔ مغربی بنگال ٹیگور نمبر، ص۰۶، جولائی ۰۱۰۲ئ
۸۱۔ Syed Muzaffar Husain Burni:Iqbal Poet Petriot of India New Delhi p10 1987
۹۱۔مضمون:سہیل انجم ،رابندر ناتھ ٹیگور فکروفن کے ہزار رنگ،ٹیگور ریسرچ اینڈ ٹرانسلیشن اسکیم ،جامعہ ملیہ اسلا میہ،۳۱۰۲ئ
۰۲۔رابندر نارتھ ٹیگور : فکروفن، ایضاً،ص۰۳۵
۱۲۔ ٹیگور شناشی، ص۶۱۱
۲۲۔رابندر نارتھ ٹیگور : فکروفن، ص۰۱۵
۳۲۔ رابندر نارتھ ٹیگور : فکروفن، ص۹۲۵
۴۲۔اقبال شاعر و سیاست داں، ڈاکٹررفیق ذکریا،ص۲۳،انجمن ترقی اردو ہند،۵۹۹۱ئ
۵۲۔ اقبال شاعر و سیاست داں، ص۳۳
۶۲۔اقبال شاعرو سیا ست داں، ایضاً،ص۲۲
۷۲۔ گفتارِ اقبال،محمد رفیق افضل ، ص۰۹۱،ادارہ تحقیقات دانش گاہ پنجاب لاہور،۴۶۹۱ئ
۸۲۔ ذاکر حسین ، جلسہ تقسیم اسناد ۰۶۹۱،بحوالہ مفکرین تعلیم :محمد اکرام ، مکتبہ جامعہ نئی دہلی ۱۱۰۲ئ
۹۲۔ماہ نو، اقبال نمبر، ستمبر ۷۷۹۱ء
۰۳۔اقبال اور مسئلہ تعلیم، ص ۰۱
۱۳۔ایضاً،حوالہ سابق
۲۳۔ Speeches and statments of Iqbal: p.206 Sept,1948
۳۳۔انوار اقبال، بشیر احمد ڈار،ص۱۴ ،کشمیر
۴۳۔رابندر ناتھ ٹیگور: فکر و فن کے ہزار رنگ ،ص۹۷، مرتب پروفیسر وہاج الدین علوی و شہزادانجم،۳۱۰۲ئ
۵۳۔ ایضاً ص۹۷،حوالہ سابق 
۶۳۔بچوں کے ربندر ناتھ،ناظمہ، ص۶،مکتبہ پیام تعلیم نئی دہلی،۱۱۰۲ئ